1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: دیہی علاقوں میں شدید گرمی کے حاملہ خواتین پر اثرات

5 مئی 2024

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں شدید گرمی کی لہریں اب معمول بن چکی ہیں۔ مسلسل بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے دیہی علاقوں میں اسقاط حمل اور قبل از وقت پیدائش کے کیسز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4fUEK
گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیں
گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ورلڈ کلائمیٹ انڈیکس  کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ درجہ  بندی کے مطابق دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق ان ممالک میں شدید اور ناموافق موسمی حالات نہ صرف ملکی معیشت میں گراوٹ کا سبب بن رہے ہیں بلکہ ان سے لوگوں کے  ذریعۂ معاش، رہن سہن اور صحت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے افراد  میں دیہی علاقوں میں رہنے والی حاملہ خواتین سر فہرست ہیں۔ اگست 2022 میں پاکستان میں تاریخی تباہ کن سیلاب کے بعد تقریباً چھ لاکھ حاملہ خواتین کو فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔ جبکہ 2023 میں سندھ اور بلوچستان میں شدید گرمی کا ریکارڈ کئی بار ٹوٹا، جس سے  زچہ و بچہ  کی اموات کی شرح بڑھ گئی۔

شدید گرمی کی لہریں اور حاملہ خواتین

امینہ خاص خیلی بدین کی تحصیل ماتلی کی رہائشی ہیں۔ وہ ماتلی کے قصبے جانی خاص خیلی کے پولیو ویکسینیشن پروگرام سے گزشتہ 20 برس سے منسلک ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ پولیو ویکسینیشن کے لئے سندھ کے دور دراز علاقوں میں جاتی ہیں اور مقامی حاملہ خواتین کی حالت زار سے واقف ہیں۔

امینہ کے مطابق بدین سمیت سندھ کے بیشتر دیہی علاقوں میں جون سے اگست کے درمیان درجۂ حرارت 50 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسے میں وہاں حاملہ خواتین کو کئی میل دوری سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین جھلستے موسم میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتی ہیں یا کھیتوں میں فصل کی کٹائی میں حصہ لیتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسقاط حمل اور دوران زچگی ماں اور بچے کی اموات کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیں
گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیںتصویر: Daniel Berehulak/Getty Images

شدید گرمی حاملہ خواتین اور نو زائدہ بچوں کو کیسے متاثر کرتی ہے؟

لوئیسا سموئلز ڈیپارٹمنٹ آف  گائینا کولوجی سینٹ تھامس این ایچ ایس ٹرسٹ لندن سے وابسطہ محقق ہیں۔ وہ سن 2022 میں لندن میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے حاملہ خواتین پر اثرات پر کی جانے والی تحقیق کی مرکزی مصنف بھی تھیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شدید گرم موسم سے قبل از وقت پیدائش یا اسقاط حمل کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

لوئیسا سیموئلز کے مطابق یہ خطرات گرم علاقوں کے دیہات میں رہنے والی خواتین کے لئے زیادہ ہیں، جہاں شدید گرم موسم میں گھروں کا ٹھنڈا کرنے کا مناسب انتظام نہیں ہوتا۔

وہ بتاتی ہیں کہ بالغ افراد میں حرارتی توازن جسم کے اندر بننے والی حرارت اور اس کے اخراج  سے آتا ہے، جس پر بیرونی ماحول کا درجۂ حرارت براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کے مطابق دراصل گرمی کے اثرات کا تعلق اس امر سے جڑا ہے کہ ہمارا جسم کس درجۂ حرارت کا عادی ہے اور کتنا درجۂ حرارت برداشت کر سکتا ہے۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ دوران حمل خواتین میں وزن میں اضافے کے ساتھ  کئی ہارمونل تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ حمل کی تیسری سہ ماہی میں دوران خون اور دل کی دھڑکن میں  عام دنوں کی نسبت تقریبا 50 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ جسم میں ہونے والی دیگر تبدیلیوں سے حاملہ خواتین کو جسمانی درجۂ حرارت متوازن رکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

لوئیسا کہتی ہیں کہ ایسے میں اگر ماحول کا درجۂ حرارت بہت بڑھ جائے تو تھرمو ریگولیشن مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق حاملہ خواتین کے جسمانی درجۂ حرارت کو معمول پر رکھنے کے لئے پسینے کے بہاؤ میں کمی، جلد میں خون کے بہاؤ میں اضافہ اور بیرونی  ٹھنڈا ماحول جیسی سٹرٹیجیز استعمال کی جاتی ہیں۔ 

گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیں
گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیںتصویر: Daniel Berehulak/Getty Images

وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران دنیا بھر میں شدید گرمی کی لہروں کے باعث اسقاط حمل اور قبل از وقت پیدائش کے واقعات میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے وارننگ جاری کی ہے کہ بڑھتے درجۂ حرارت سے حاملہ خواتین کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ 

آغا خان یونیورسٹی کا تحقیقی پروگرام کیا ہے؟

بھارت سمیت دنیا بھر میں شدید گرمی کے حاملہ خواتین پر اثرات  پر  تحقیق کی جا رہی ہے۔ جنوری 2024 میں آغا خان یونیورسٹی کراچی نے برطانیہ کے ویلکم ٹرسٹ کی معاونت سے چار سالہ تحقیقی منصوبے کا آغاز کیا ہے، جو پاکستان میں حاملہ خواتین سے متعلق اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کے پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ  ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ  سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر جے داس اس منصوبے کی سربراہ  ہیں۔ ان کے مطابق پہلے مرحلے میں صوبۂ سندھ کے اضلاع ٹنڈو محمد خان،  مٹھیاری اور تھر پارکر میں 6000 حاملہ خواتین سے ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا۔  وہ بتاتے ہیں کہ اس منصوبے کے اگلے مرحلے میں کراچی کی کچی آبادیوں اور کم آمدنی والے علاقوں جیسے کورنگی، دھوبی گھاٹ اور کھارادار سے ڈیٹا لیا جائے گا۔ ان علاقوں میں حاملہ خواتین چھوٹے اور بند فلیٹوں میں  شدید گرمی میں کچن میں کام کرتی ہیں جہاں گھر کو ٹھنڈا رکھنے کا مناسب انتظام نہیں ہوتا۔

گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیں
گزشتہ دو سالوں میں وہاں قبل از وقت اور انتہائی کمزور بچوں کی پیدائش کے کیسز بڑھ گئے ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ڈاکٹر جے داس کے مطابق اس تحقیق کے لئے حاملہ خواتین کو پہننے کے لئے  مخصوص آلات  دیئے جائیں گے، جن سے ان کے جسم کے درجۂ حرارت میں تغیر اور اضافے کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔ ان معلومات سے حاملہ خاتون اور بچے کی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کی وجوہات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

آغاخان یونیورسٹی کے شعبۂ پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ سے منسلک ڈاکٹر عائشہ یوسفزئی کہتی ہیں کہ آغا خان یونیورسٹی کا یہ چار سالہ پراجیکٹ وقت کی ضرورت ہے۔ شدید گرم علاقوں میں لیڈی ہیلتھ وزیٹرز یا گائنا کالوجسٹ کو حاملہ خواتین کو گرمی کے اثرات سے بچانے کے لئے تربیت  اور گائیڈ لائنز فراہم کرنا ہوں گی، جس کے لئے یہ تحقیقی پراجیکٹ اہم معلومات فراہم کرے گا۔

دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کیا بتاتی ہیں؟

2017 میں شری رام چندر انسٹی ٹیوٹ فار ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انڈیا نے ایک تحقیق کا آغاز کیا تھا جس کے نتائج حال ہی میں شائع کئے گئے ہیں۔ بھارتی ریاست تامل ناڈو کی 800 خواتین سے حاصل شدہ ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ شدید گرمی کی لہریں پیدائش سے پہلے بچے کی موت اور قبل از وقت پیدائش کے خطرات کو دو گنا کر دیتی ہیں۔

جنوری 2023 میں ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ایسی ہی تحقیق میں میسا چوسسٹس میں 9500 حاملہ خواتین سے اعداد و شمار حاصل کئے گئے تھے۔ تحقیق کے مطابق شدید گرمی سے جنین کی گروتھ یا بڑھوتری متاثر ہوتی ہے جس میں بچے کے سر کا سائز، پیٹ اور ران کی ہڈی کی لمبائی شامل ہیں۔

ہارورڈ چان سکول آف پبلک ہیلتھ کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ماں کے جسم کا درجۂ حرارت زیادہ یا ایب نارمل ہونے سے جنین کے سر کا سائز اور نظام اعصاب سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ محققین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ایک عشرے میں دنیا بھر میں بچوں میں آٹزم کے کیسز میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔